For better resolution click HERE
____________________________________________________________________
For better resolution click HERE
____________________________________________________________________
Version No. 1: (Old) [December 4, 2014]
For better resolution click HERE
_____________________________
=======================
Version 3 [in Text Form]
میرا گاؤں منگلور (ماضی میں المعروف د جنت ور)
د جنت ور منگلور حکومت کی عدم توجہ سے دوزخ کا دروازہ بن گیا ہے
*** منگلور کے منفرد خصوصیات:
(1: 45 ہزار آبادی والا بابوزئی قبیلے کا سب سے بڑا مسکن۔
(2: 450ء میں بدھ مت حکمرانوں کا دارالخلافہ اور سرکاری قیام گاہ۔
(3: 1550ء میں سوات بھر میں سب سے بڑا تجارتی مرکز اور قصبہ کی حیثیت۔
(4: دنیا کے دوسرے بڑے بدھ مجسمے کا حامل۔
(5:سکندراعظم اور محمود غزنوی کا رہگزر۔
(6:سوات بھر کے بلند ترین ابشار (شنگرو ڈھنڈ) اور دوسرے بلند ترین پہاڑی چوٹی ’’دوہ سرو‘‘ کا حامل۔
(7:قیام ریاست سوات کے وقت باچا صاحب کا دارالخلافہ کیلئے پسندیدہ مقام۔
(8:نامور سکالروں، نامور سرکاری اہلکاروں اور غیرت و حمیت سے بھرپور بیدار مغز باشندوں کا مسکن۔
(9:نمایاں خواندگی کا حامل۔
***دلکش لوکیشن، صحت آفزاء، آب و ہوا اور قدرتی حسن سے مالامال میرا گاؤں منگلور جو آجکل قابل توجہ اور حل طلب مسائل کے نرغے میں ہے۔ مثلا:
(1-عرصہ سات سال سے پہلے تباہ شدہ گرلز ڈگری کالج تاحال تعمیر نہیں ہوا ہے۔
(2-ضلع کے تیسرے بڑے آبادی والے گاؤں منگلور میں ابھی تک بوائیز ڈگری کالج نہیں ہے۔
(3-گاؤں کے نوجوانوں کو نشوں اور دیگر غیر صحت مند سرگرمیوں سے بچانے کیلئے گاؤں میں پارک یا تفریح گاہ ہونا چاہئے۔
(4-بے زمین کاشتکاروں کیلئے مفت ٹسٹڈ بیج اور کھاد فراہمی کی ریلیف ہونی چاہئے۔
(5-خانہ دار خواتین کی فلاح اور آمدن کیلئے گاؤں میں سرکاری سرپرستی کے تحت دستکاری مراکز وغیرہ کا قیام ہونا چاہئے۔
(6-پبلک واٹر سپلائی سسٹم کی اصلاح کرکے سائینسی بنیادوں پر صحت بخش بنانا چاہئے۔
(7-سوئی گیس لائن اور گھروں تک ترسیل پر سیاست کے بجائے فوری عمل و درآمد ہونا چاہئے۔
(8-منگلور عوام کے ملکیتی پلے گراونڈ کا قضیہ ختم کرکے فلفور منگلور ہائی سکول کے تحویل بلاشرکت غیرے دینا چاہئے۔
(9-منگلور عوام کے ملکیتی زمین پر کڈنی ہسپتال کیساتھ ملٹی پرپز سول ہسپتال منگلور کا قیام یقینی بنایا جائے۔
(10-منگلور جسکے حدود پبلک سکول سنگوٹہ کے مین گیٹ ، منگلور پل، شخوڑئی اور مخوزئی تک ہے۔ ان حدود مین واقع ہر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر منگلور واضح لکھا جائے، دیگر حرکت سازش تصور ہوگی۔
(11-توانائی بحران میں کمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کے واسطے منگلور میں کولام کے مقام پر نہایت کم لاگت سے ہائڈرل پاورپلانٹ بنایا جائے۔
(12-نوجوانوں کو روزگار فراہمی ٹکی پہاڑ پر سیمنٹ پلانٹ بنانا چاہئے۔
(13-وسیع آبادی کے پیش نظر منگلور میں کل وقتی پوسٹ آفس ہونا چاہئے۔
(14-سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں صرف منگلور کے اہل بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی ہونا چاہئے۔
(15-جنگلات کی کٹائی پر قدغن لگا کرہنگامی بنیادوں پر نئی شجرکاری پر توجہ دینی چاہئے۔
(16-ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر قدغن ہونا چاہئے۔
(17-بچوں کو مہلک امراض اور غذائی قلت سے بچانے کیلئے غیر معیاری پاپڑ ، املی اور سویٹس پر پابندی ہونی چاہئے۔
(18-گھروں میں قائم فلش سسٹم کے گندہ پانی نالیوں میں ڈالنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ عمومی گند کو صاف کرنے کیلئے منگلور کو میونسپل کمیٹی سے منسلک کرنا چاہئے۔
(19-گاؤں میں نشہ آور اشیاء کے لین دین پر قدغن لگانا چاہئے۔
(20-منگلور کے بزرگوں کے نشاۃثانیہ جیسے مہمان نوازی، خوش اخلاقی، امداد باہمی اور بھائی چارے کے فضا کی قیام کیلئے مختلف مجالس کا انعقاد ہونا چاہئے۔
***درجہ بالا مسائل کے حل کیلئے منتخب نمائندے مقدور بھر کوشش کریں***
(5:سکندراعظم اور محمود غزنوی کا رہگزر۔
(6:سوات بھر کے بلند ترین ابشار (شنگرو ڈھنڈ) اور دوسرے بلند ترین پہاڑی چوٹی ’’دوہ سرو‘‘ کا حامل۔
(7:قیام ریاست سوات کے وقت باچا صاحب کا دارالخلافہ کیلئے پسندیدہ مقام۔
(8:نامور سکالروں، نامور سرکاری اہلکاروں اور غیرت و حمیت سے بھرپور بیدار مغز باشندوں کا مسکن۔
(9:نمایاں خواندگی کا حامل۔
***دلکش لوکیشن، صحت آفزاء، آب و ہوا اور قدرتی حسن سے مالامال میرا گاؤں منگلور جو آجکل قابل توجہ اور حل طلب مسائل کے نرغے میں ہے۔ مثلا:
(1-عرصہ سات سال سے پہلے تباہ شدہ گرلز ڈگری کالج تاحال تعمیر نہیں ہوا ہے۔
(2-ضلع کے تیسرے بڑے آبادی والے گاؤں منگلور میں ابھی تک بوائیز ڈگری کالج نہیں ہے۔
(3-گاؤں کے نوجوانوں کو نشوں اور دیگر غیر صحت مند سرگرمیوں سے بچانے کیلئے گاؤں میں پارک یا تفریح گاہ ہونا چاہئے۔
(4-بے زمین کاشتکاروں کیلئے مفت ٹسٹڈ بیج اور کھاد فراہمی کی ریلیف ہونی چاہئے۔
(5-خانہ دار خواتین کی فلاح اور آمدن کیلئے گاؤں میں سرکاری سرپرستی کے تحت دستکاری مراکز وغیرہ کا قیام ہونا چاہئے۔
(6-پبلک واٹر سپلائی سسٹم کی اصلاح کرکے سائینسی بنیادوں پر صحت بخش بنانا چاہئے۔
(7-سوئی گیس لائن اور گھروں تک ترسیل پر سیاست کے بجائے فوری عمل و درآمد ہونا چاہئے۔
(8-منگلور عوام کے ملکیتی پلے گراونڈ کا قضیہ ختم کرکے فلفور منگلور ہائی سکول کے تحویل بلاشرکت غیرے دینا چاہئے۔
(9-منگلور عوام کے ملکیتی زمین پر کڈنی ہسپتال کیساتھ ملٹی پرپز سول ہسپتال منگلور کا قیام یقینی بنایا جائے۔
(10-منگلور جسکے حدود پبلک سکول سنگوٹہ کے مین گیٹ ، منگلور پل، شخوڑئی اور مخوزئی تک ہے۔ ان حدود مین واقع ہر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر منگلور واضح لکھا جائے، دیگر حرکت سازش تصور ہوگی۔
(11-توانائی بحران میں کمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کے واسطے منگلور میں کولام کے مقام پر نہایت کم لاگت سے ہائڈرل پاورپلانٹ بنایا جائے۔
(12-نوجوانوں کو روزگار فراہمی ٹکی پہاڑ پر سیمنٹ پلانٹ بنانا چاہئے۔
(13-وسیع آبادی کے پیش نظر منگلور میں کل وقتی پوسٹ آفس ہونا چاہئے۔
(14-سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں صرف منگلور کے اہل بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی ہونا چاہئے۔
(15-جنگلات کی کٹائی پر قدغن لگا کرہنگامی بنیادوں پر نئی شجرکاری پر توجہ دینی چاہئے۔
(16-ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر قدغن ہونا چاہئے۔
(17-بچوں کو مہلک امراض اور غذائی قلت سے بچانے کیلئے غیر معیاری پاپڑ ، املی اور سویٹس پر پابندی ہونی چاہئے۔
(18-گھروں میں قائم فلش سسٹم کے گندہ پانی نالیوں میں ڈالنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ عمومی گند کو صاف کرنے کیلئے منگلور کو میونسپل کمیٹی سے منسلک کرنا چاہئے۔
(19-گاؤں میں نشہ آور اشیاء کے لین دین پر قدغن لگانا چاہئے۔
(20-منگلور کے بزرگوں کے نشاۃثانیہ جیسے مہمان نوازی، خوش اخلاقی، امداد باہمی اور بھائی چارے کے فضا کی قیام کیلئے مختلف مجالس کا انعقاد ہونا چاہئے۔
***درجہ بالا مسائل کے حل کیلئے منتخب نمائندے مقدور بھر کوشش کریں***
0 comments:
Post a Comment